آپ کی تربیت پر بچے کا مستقبل کا دارومدار
بچے کی پرورش اور اس کی تعلیم و تربیت، ایک ماں کیلئے انتہائی اہم ذمہ داری ہے کیونکہ اسی تربیت پر بچے کے مستقبل کا دارومدار ہوتا ہے۔ لیکن ماں کیلئے یہ کام اس صورت میں مزید دشوارہو جاتا ہے کہ جب اس کے پاس سسرال اور میکے والوں کی جانب سے پیش کئے جانے والے مشوروں کا انبار موجود ہو یہی نہیں بلکہ ٹی وی اور مختلف رسائل میں Parenting کے موضوع پر ماہرین کے تجویز کئے ہوئے مشورے بھی اس کے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہوں۔ ایسے میں ماں کیلئے یہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے کہ بچے کی تربیت کیلئے اسے کونسا انداز اختیار کرنا چاہیے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلہ صرف ایک ماں ہی کرسکتی ہے کہ اسے اپنے بچے کی تعلیم و تربیت کس انداز سے کرنی ہے کیونکہ بچے کو اس سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔ لہٰذا آپ بھی یہ فیصلہ خود ہی کریں، البتہ اس سلسلے میں درج ذیل باتوں کو مدنظر رکھیں تو یقیناً آپ کو سہولت رہے گی۔
وقت کے ساتھ چلنا سیکھیں
بچوں کی پرورش کیلئے کوئی ایک لگا بندھا اصول مقرر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ ایسا خوشگوار سفر ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے لہٰذا والدین، خصوصاً ماں کو اس بات پر غور کرتے رہنا چاہیے کہ موجودہ حالات کے تحت اسے اپنے روئیے میں کونسی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے جو بچوں کے حق میں سازگار ثابت ہوسکیں۔ بچے عمر کے ساتھ جوں جوں عمر کے مختلف ادوار میں داخل ہوتے ہیں، ان کی ضروریات بدلتی رہتی ہیں۔ اسی لحاظ سے ایک ماں کے فرائض کی نوعیت میں بھی تبدیلیاں آتی ہیں۔ بچہ شیر خوار ہو سکول جانے کی عمر کا ہو جائے یاجوانی کی دہلیز پہ قدم رکھ چکا ہو اسے ہر دور میں ماں کی توجہ درکار ہوتی ہے۔ تاہم اس توجہ کی نوعیت تھوڑی بہت بدل جاتی ہے۔
سارے بچے ایک جیسے نہیں ہوتے
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر آپ دو بچوں کی ماں ہیں تو باوجود اس کے کہ وہ دونوں آپ ہی کے جگر گوشے ہیں ان کا مزاج اور عادات ایک دوسرے سے قدرے الگ ہوں گی۔ لہٰذا اگر ایک بچہ تیز مزاج کا مالک ہے اور جلدی غصے میں آجاتا ہے جبکہ دوسرا دھیمی طبیعت رکھتا ہے تو ظاہر ہے کہ آپ ان دونوں کو ان کے مزاج کے مطابق ہی ڈیل کریں گی اور موقع محل کے لحاظ سے اپنا رویہ کبھی نرم تو کبھی ذرا گرم رکھیں گی، تب ہی بات بن سکے گی۔
قریبی رشتہ داروں اور سہیلیوں کے مشاہدات
یہ درست ہے کہ کچھ بھی سیکھنے کے ضمن میں آپ کا تجربہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ تاہم جب آپ پہلی بار ماں بنتی ہیں تو اس مرحلے پر آپ کے پاس کوئی تجربہ نہیں ہوتا لہٰذا تب آپ کو اپنے مشاہدے سے کام لینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس لئے اپنے قریبی رشتے داروں اور سہیلیوں کے طریقوں پر نظر ڈالیں کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت کیسے کرتی ہیں۔ ان کے طور طریقوں سے آپ یقیناً بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں اور اپنی سہولت کے مطابق ان طریقوں میں سے کچھ ترکیبیں اخذ کرکے اپنا مقصد پورا کرسکتی ہیں۔
شریک حیات کی رائے کا احترام
بچے کی پرورش اور اس کی تعلیم و تربیت کی زیادہ تر ذمہ داری ماں کے شانوں پر ہوتی ہے جبکہ باپ اپنی ملازمت اور روزگار کے معاملات میں الجھا رہتا ہے لیکن بہت سے گھروں میں باپ بھی اپنے بچوں کو مسلسل توجہ دیتے ہیں اور ان کے معاملات سے بالکل لاپروا نہیں رہتے۔ تاہم ایسے گھروں میں کبھی کبھار کسی مسئلے پر ماں اور باپ کے درمیان اختلاف رائے کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ لہٰذا ایسے میں ماں کو ٹھنڈے مزاج سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ مانا کہ آپ بچے کی پرورش کیلئے زیادہ دکھ جھیلتی ہیں لیکن باپ کا حق بھی اولاد پر کم نہیں ہوتا۔ بچوں کے معاملے میں ہمیشہ اپنی مرضی کو فوقیت نہ دیں بلکہ شریک حیات کی رائے کا بھی احترام کریں۔ آپ دیکھیں گی اس سے بچوں کی شخصیت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے جبکہ ماں باپ کے درمیان اختلافات بچوں پر بُرا اثر ڈالتے ہیں۔
بچے کی شخصیت کو نکھاریں
بجائے اس کے کہ بچے پر ہمہ وقت اپنی رائے اور اپنی مرضی مسلط کریں آپ کو چاہیے کہ کوئی بھی طریقہ اپناتے ہوئے اس کی شخصیت اور اس کے محسوسات کو بھی مدنظر رکھیں۔ اکثر مائیں بچوں کو اپنا پرتو بنانے کی کوشش کرتی ہیں اور ان پر وہی طریقے آزماتی ہیں جو ان کی پرورش کیلئے اختیار کئے گئے تھے۔ بدلتے وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے لہٰذا بچہ جیسا ہے ایسے ویسا ہی رہنے دیں اور اس کی صلاحیتوں کو نکھارنے پر توجہ دیں۔ بہتر یہی ہے کہ لکیر کی فقیر بننے کے بجائے آپ اپنے طریقوں پر غور کرتی رہیں کہ کب آپ سے کیا غلطی ہوئی یا کیا کمی رہ گئی تاکہ بروقت آپ کمی کا ازالہ کرسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی سنیں! بچے کیا کہہ رہے ہیں؟
کہتے ہیں کہ بچپن بے فکری کا زمانہ ہوتا ہے اور اس دوران ہم ہر غم و فکر سے آزاد ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بچے ان فکروں سے تو بے نیاز ہوتے ہیں جو عموماً بڑوں کو لاحق ہوتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بچے بھی مختلف کیفیات سے گزرتے ہیں۔ وہ اداسی اور ٹینشن میں مبتلا ہوسکتے ہیں اور ان کا بھی موڈ خراب ہوسکتا ہے کیونکہ انہیں بھی غصہ آتا ہے۔ ان کیلئے مزید مشکل یہ ہوتی ہے کہ چھوٹے ہونے کے سبب وہ اپنے غصے کا اظہار بھی نہیں کرسکتے۔ انہیں تربیت دی جاتی ہے کہ اونچی آواز میں بات کریں اور نہ ہی اپنے لہجے سے غصے کا اظہار ہونے دیں کیونکہ یہ بدتہذیبی میں شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن اس سے ہوتا یہ ہے کہ جب بچے کو اپنے جذبات کے اظہار کا موقع نہیں ملتا تو وہ جھنجلاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے، بات بے بات روتا ہے الور کبھی کبھار ضد پر بھی اتر آتا ہے یا کسی بات پر آپ کا کہنا ماننے سے انکار کردیتا ہے۔ اس لئے جب بچہ ایسا رویہ اختیار کرے تو آپ کو سمجھ جانا چاہیے کہ اسے کسی بات پر رنج و شدید غصہ ہے۔ بچے اسی وقت عدم تعاون کا رویہ اختیار کرتے ہیں جب انہیں کوئی شکایت ہوتی ہے اور والدین اس پر توجہ نہیں دیتے۔ کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ کا بچہ پکارنے پر جواب نہیں دیتا۔ آپ اسے متوجہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو آپ کو نظر انداز کرکے گزر جاتا ہے، اپنی چیزیں جان بوجھ کواِدھر اُدھر بکھیر دیتا ہے اور سکول ٹیسٹ میں اچانک کم نمبر لانے لگتا ہے۔
ماں سے زیادہ بچے کا مزاج اور اس کا موڈ کوئی نہیں پہچان سکتا، اس لئے یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اگر بچہ اس قسم کا رویہ اختیار کرے تو یہ دریافت کرنے کی کوشش کریں کہ اسے آپ سے کیا شکایت ہے۔ آپ اسے اچھی تربیت ضرور دیں، اونچی آواز میں بات کرنے اور توڑ پھوڑ کرنے سے باز رکھیں، لیکن اسے اتنا اعتماد دیں کہ وہ اپنی ہر بات آپ سےبلا جھجک کہہ سکے اور پھر بے بسی اور جھنجلاہٹ کا شکار ہونے سے بچ جائے۔ اگر وہ اپنے جذبات ظاہر نہیں کرے گا اور براہ راست آپ سے کوئی بات نہیں کہہ پائے گا تو احتجاج کے طور پر آپ کوزچ کرنے کی کوشش کرے گا اور چڑچڑا ہو جائے گا۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اگر آپ پھر بھی اس کے مسائل کی جانب توجہ نہیں دیں گی تو پھر وہ جان بوجھ کر اپنے کام بگاڑنے لگے گا۔ یاد رکھیں کہ مسائل صرف بڑوں کے ساتھ ہی نہیں ہوتے بلکہ بچوں کے بھی کچھ مسائل ہوسکتے ہیں۔
اگر آپ کو کبھی ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے تو تحمل کے ساتھ اپےن روئیے پر غور کریں کہ کیا آپ ذرا ذرا سی بات پر بچے کو سختی کے ساتھ ڈانٹ دیتی ہیں اور اس کا جواب سننے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتیں۔ وہ اپنا کوئی مسئلہ بیان کرنے کی کوشش کرے تو آپ غصے میں بس کہہ کر اسے بات کرنے سے روک دیتی ہیں؟ لیکن آپ بچوں کو اپنے سامنے بولنے کا موقع نہیں دیں گی تو ان کے خیالات، جذبات اور ان کی شکایات سے کیسے واقف ہو پائیں گی۔ بچہ اپنے ساتھ پیش آنے والا کوئی واقعہ سنانے کی کوشش کرے مگر آپ اس کی بات سننے کی بجائے اپنے ہی کاموں میں مصروف رہیں یا اسے سختی کے ساتھ ڈانٹ دیں کہ ’’دیکھتے نہیں میں مصروف ہوں‘‘ تو پھر بچہ بھی آپ کے ساتھ عدم تعاون کا رویہ اختیار کرنے میں خود کو حق بہ جانب سمجھتا ہے لہٰذا بچوں کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرنے سے گریز کریں اور انہیں اتنا حوصلہ دیںکہ وہ تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے آپ سے ہر بات کہہ سکیں۔ بچہ کوئی شکایت بیان کرے تو اپنا کام روک کر اس کی بات سنیں تاہم اگر کسی وقت آپ بہت مصروف ہوں تو نرمی کے ساتھ اسے سمجھا دیں کہ تھوڑی دیر بعد آپ اس کی بات سنیں گی اور پھر اس کی بات سننے کیلئے وقت نکالیں۔ آدھی بات بیان کرنے پر اسے درمیان میں ٹوک کر خاموش نہ کریں بلکہ اسے اپنی بات مکمل کرنے دیں۔ بچے کو ہمیشہ غلط ثابت کیا جائے تو وہ نہ صرف یہ کہ عدم اعتماد کا شکار ہوتا ہے بلکہ چڑچڑا بھی ہو جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ آپ بچے کو اعتماد دیں تاکہ اس کی شخصیت میں کوئی کمی یا خامی نہ رہنے پائے۔ یاد رکھیں کہ عمر کے ابتدائی چند سالوں میں ہی بچوں کے روئیے تشکیل پاتے ہیں اور پھر یہ باتیں عمر بھر کیلئے ان کی عادات میں شامل ہو جاتی ہیں۔
بچوں کو جذبات کا اظہار کرنے دیں اور اس کیلئے انہیں تربیت دیں کہ انہیں جو بھی شکایت یا مسئلہ درپیش ہو اسے تحمل کے ساتھ بیان کردیں کیونکہ اصول یہی ہے کہ کذبات کو دبایا جائے تو کسی نہ کسی وقت غصے کا یہ لاوا ضرور پھٹتا ہے۔ آپ کی توجہ کی ضرورت محض چھوٹے بچوں کو ہی نہیں بلکہ ٹین ایچ بچوں کو بھی ہوتی ہے۔ نوجوانی کے دور میں قدم رکھنے والے بچے نسبتاً زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ اس دور میں اگر انہیں مناسب توجہ نہ ملے تو وہ گھر سے باہر لوگوں میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ صورت حال ان کیلئے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ ان میں اتنا شعور نہیں ہوتا کہ اچھے برے لوگوں کی پہچان کرسکیں۔ ایسے میں کوئی انہیں غلط راستہ بھی دکھا سکتا ہے۔ اس لئے بچوں سے ہمیشہ دوستانہ انداز میں بات کریں اور بجائے اس کے کہ ان کے سامنے نصیحتوں کا پلندہ کھول کر بیٹھ جائیں، انہیں غیر محسوس طریقے سے باتوں باتوں میں کام کی باتیں سمجھائیں۔ اس طرح آپ کی نصیحت زیادہ موثر طریقے سے ان تک پہنچے گی۔ جو مائیں بچوں پر اپنے نظریات ٹھونسنے کی کوشش کرتی ہیں اور انہیں اپنی پسند و ناپسند کے سانچے میں ڈھالنا چاہتی ہیں۔ وہ دراصل بچوں کو اعتماد سے محروم حکردیتی ہیں۔ بچوں کو کوئی بات سمجھانی ہوتو ان کی عمر کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہلکی پھلکی مثالوں اور دلائل سے ان تک اپنی بات پہنچائیں بچوں کے کاموں میں ہر وقت خامیاں نکالنا اور یہ کہتے رہنا کہ انہیں کچھ نہیں آتا انہیں دل برداشت کرتا ہے اور پھر وہ مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ بار بار بچوں کی دل آزاری کی جائے تو وہ ادا اور دل گرفتہ رہنے کے عادی بن جاتے ہیں۔ اس طرح ان کی شخصیت عدم توازن ہو جاتی ہے اور والدین کے ساتھ ان کے تعلقات میں بھی ایک گرہ سی پڑجاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں